امریکہ کے سابق نائب وزيرِ خارجہ ریچرڈ آرمٹیج کا کہنا ہے کہ پاکستان اگر ڈرون حملوں کو روکنا چاہے تو وہ انہیں روک سکتا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ جب بھی یہ حملے ہوتے ہیں پاکستان کی حکومت اس کے خلاف آواز اٹھاتی ہے لیکن آگے کچھ نہیں کرتی اور اس سے عوام کا غصہ ضرور بھڑكتا ہے لیکن حل کچھ نہیں نکلتا۔
آرمٹیج نے یہ بیان الجزیرہ ٹی وی کے ساتھ ہوئی بات چیت میں دیا ہے۔ گذشتہ روز الجزیرہ نے دو مئی دو ہزار گیارہ کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما اُسامہ بن لادن کی ہلاکت سے متعلق حقائق جاننے کے لیے حکومتِ پاکستان کی جانب سے قائم کیے گئے کمیشن کی رپورٹ شائع کی تھی۔
رپورٹ میں اگرچہ پاکستانی حکومت اور فوج پر سخت تنقيد کی گئی ہے لیکن پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے ایک مجرمانہ کارروائی کی ہے اور یہ ایک طرح کی جنگی کارروائی تھی۔
ریچرڈ آرمٹیج 2001-2005 تک نائب وزیرِ خارجہ کے عہدے پر تھے اور اپنے دوٹوك بیانات کے لئے مشہور ہیں۔ ستمبر دو ہزار ایک کے حملوں کے بعد کے یہ پانچ سال پاکستان کی تاریخ میں پاکستان اور امریکہ کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں۔
ریچرڈ آرمٹیج کا کہنا ہے کہ امریکہ نے کسی طرح کی جنگ کا اعلان نہیں کیا تھا۔ اُن کے مطابق ’اس مہم میں ہم نے ایک دہشت گرد کو مار ڈالا۔ اگر پاکستان اس کارروائی کو جنگ کی طرح دیکھتا ہے تو یہ اُن کی مرضی ہے۔‘
ریچرڈ آرمٹیج کا کہنا ہے کہ وہ ڈرون حملوں کے خلاف نہیں ہیں لیکن ان کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا ’پاکستان اور امریکہ کا رشتہ انتہائی پیچیدہ ہے۔ جب ڈرون حملے ہوتے ہیں تو پاکستان میں امریکہ کے خلاف کافی غصہ ہوتا ہے لیکن آپ کسی بھی پاکستانی کو امریکہ آنے کا موقع دیں تو وہ فورا
راضی ہو جائے گا۔‘
آرمٹیج کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری لانے کے لئے بہت کام کیا ہے لیکن فوجی حکومت ہو یا جمہوری حکومت جب وہ 19 کروڑ پاکستانی عوام کو دیکھتے ہیں، تو انہیں بہت
افسوس ہوتا ہے کیونکہ دونوں ہی طرز کی حکومتوں نے عوام کے ساتھ برا سلوک کیا ہے۔
ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ پر فی الحال امریکی دفترِ خارجہ یا وائٹ ہاؤس کی جانب سے کوئی ردِعمل نہیں آیا ہے۔
Source:BBC URDU