واشنگٹن : امریکی فوج کی اعلی کمانڈ نے شام پر ممکنہ حملے کے لئے پانچ آپشنز پیش کردیئے ہیں، جب کہ حملے کا فیصلہ سول قیادت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
کانگریس کے نام ایک خط میں امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مارٹن ڈیمپسی نے کہا ہے کہ ان آپشنز کو معمولی نہیں لیا جانا چاہیے کیونکہ یہ جنگ میں کودنے سے کم نہیں ہوگا۔
جنرل ڈیمپسی کے ان آپشنز میں باغیوں کی غیر مہلک ہتھیار چلانے کی تربیت سے لے کر شامی سرزمین پر فوجی کارروائی تک کا ذکر کیا گیا ہے۔
خط میں یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ باغیوں کو تربیت فراہم کرنے کے علاوہ امریکی افواج شامی حکومت کی تنصیابات کو دور سے نشانہ بھی بنا سکتی ہیں۔
جنرل ڈیمپسی نے خط میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چئیرمین کارل لیون کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان آپشنز میں سے کسی ایک بارے میں فیصلہ سیاسی ہوگا کیونکہ ہماری قوم کو اپنی سول قیادت پر اعتماد کرتی ہے۔
جنرل ڈیمپسی کی پیش کردہ تجاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکا شامی رجیم کی فضائی، زمینی اور بحری دفاعی صلاحیت کو مغلوب کرنے کے لیے مہلک حملے بھی کرسکتا ہے۔ تاہم اس آپشن پرعمل درآمد کے لیے سیکڑوں جنگی طیارے اور بحری جہاز درکار ہوں گے اور ان کے حملوں کے دورانیے کے مطابق ان کی لاگت اربوں ڈالرز میں ہوسکتی ہے۔
خط میں شام کی جنگ میں کودنے سے لاحق خطرات سے بھی آگاہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے انتہا پسند عناصر طاقتور ہوسکتے ہیں جب کہ شامی فوج جوابی حملے بھی کرسکتی ہے۔
جنرل ڈیمپسی نے مزید کہا ہے کہ اگر کوئی اقدام کیا گیا تو پھر امریکا کو آگے کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا تا کہ کسی مشکل صورت میں بروقت فیصلے کیے جاسکیں۔
خیال رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے جون میں شامی حکومت کی جانب سے مخالفین خلاف کیمیائی ہتھِیاروں کے استعمال کے ثبوت منظرعام پر آنے کے بعد باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا اس فصلے پر تاحال عمل نہیں کیا گی